Unknown crocodile
0 Subscriptions 0 Followers
انسان ازل سے ہی حالتِ جنگ میں ہے۔ایک جنگ وہ زمانے سے کرتا ہے جس میں اُسنے رہنا ہوتا ہے۔مگر ایک ایسی جنگ ہے جو وہ خود سے کرتا ہے۔اسکو ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے بیان کرتا ہے ۔کوئی اسکو ضمیر کی جنگ کہتا ہے،کوئی اسکو خودی کی جنگ کہ دیتا ہے، کہی یہ نفس کی جنگ ہے، اور کبھی یہ دل و دماغ کی جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔نفسیات اسکو consciousness کا نام دیتی ہے،دین اسکو نفس کا نام دیتا ہے،فلاسفی اسکو خودی کی جنگ کہتی ہے،قانون اسکو غلط اور درست کی جنگ کہتا ہے، مذہب اسکو حلال حرام کی جنگ اور سائنس اسکو مشاہدہ اور پریکٹیکل کی جنگ کا نام دیتا ہے۔ آپ اس جنگ کو جو بھی نام دیں مگر ایک بات سب سے اہم ہے اس دنیا میں جن لوگوں نے یہ خود سے خود کی جنگ لڑی ہے وہی کامیاب ہوئے ہیں۔جو خود کو فتح کر گئے دنیا اُنکے آگے جھک گی۔جو خود سے ہار گئے وہ دنیا سے کبھی بھی نہ جیت سکتے ہیں۔خود سے خود کی جنگ کیا ہے۔آپ دیکھیں ایک بندہ کامیاب ہے۔آپ بل گیٹس،ٹیسلا،منڈیلا،یا جو بھی مشہور شخصیات کی کامیابیاں دیکھتیں ہیں یہ لوگ خود سے جنگ کرتے رہے۔اپنےکام کے ساتھ وفادار رہے،محنت لگن،مشکل ،مصیبت میں ہار نہیں مانی۔بلکہ خود کو خود سے بہتر کرتے گئے۔بہتر سے بہترین کا سفر ان لوگوں خود سے مقابلہ کر کے جیتا۔سوچیں اگر یہ لوگ لوگوں کی باتیں،وقتی ناکامیاں کے آگے حوصلے ہار جاتے تو آج یہ لوگ کامیاب نہ ہوتے۔
بلکل اسی طرح آپ نفسیات کا پہلو دیکھیں۔فرائیڈ ماڈرن نفسیات کا فائنڈر کہا جاتا ہے ۔اُسکا کہنا ہے انسان کی پرسنالٹی ۔ID،Ego،Super Ego کا مجموعہ ہے۔اگر ان میں بیلنس ہے تو انسان نارمل ہے اگر بیلنس آؤٹ ہوا تو ابنارمل ہے بندہ۔وہ کہتا ہے super Ego وہ مقام ہے جہاں انسان خود سے ایک جنگ لڑتا ہے ۔ یہاں ہر انسان نہیں پہنچ سکتا ۔جو یہ جنگ جیت جاتا ہے وہ اپنے اصول بنا لیتا ہے ۔ایسےکامیاب اصول جن کو دنیا فالو کرتی ہے۔جیسے عبدالستار ایدھی جنہوں نے لوگوں کی مدد کے ایسے اصول بنا دیے آج بڑی بڑی سوشل فاؤنڈیشن اُن کو استاد مانتی ہیں۔
اسی طرح فلسفہ اسکو خود سے خود کی جنگ کو خودی کا نام دیتا ہے۔اقبال کہتا ہے خود کو اتنا بلند کرو کے خُدا خود پوچھے آپکی رضا کیا ہے۔خودی دراصل یقین کا نام ہے۔خودی دراصل خود پے اعتماد کا نام ہے۔خودی ایک ایسا مقام ہے جہاں انسان دنیا سے آگے کی سوچتا ہے۔یہ خودی ایسے نہ ملتی۔اِسرار خودی میں اقبال خود کہتا ہے خودی حاصل کرنی ہے تو دل کو پاک کرو،محنت کرو،اپنےآپ سے جنگ کرو ۔خود کو نفرت،کینہ،بغض،تکبر سے جنگ کر کے آزاد کرو۔ خود کو ایک خدا کی محبت میں قربان کر دو۔جب انسان یہ جنگ جیت لیتا ہے تو وہ سعدی،رومی،تبریز،بلھا،قلندر،باہو یا میاں محمد بخش بن جاتا ہے۔۔
مذہب اسکو نفس کی جنگ کہتا ہے۔اسی لیے تو کہا جاتا ہے تیرا نفس ہے تیری دنیا آخرت ہے۔جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا گویا اُسنے رب کو پہچان لیا۔نفس کی جنگ در اصل خود سے جنگ ہے ۔آپ نفس سے جنگ جیت کے ہی بُرائی سے بچتے ہیں۔آپکا نفس کہتا بھوکا نا رہو آپ روزہ رکھتے۔آپ کی سامنے شراب ہے نفس کہتا پی لو آپ نہیں پیتے آپ جنگ جیت جاتے،آپ جھوٹ نہیں بولتے،کسی کا برا نہیں چاہتے، آپ زنا نہیں کرتے۔غرض ہر وہ کام جو نفس کہتا آپ نہیں کرتے تو آپ پھر ولی بن جاتے ہیں۔جب آپ یہ جنگ جیت جاتے تب آپ بلال رضی ،اویس قرنی بن جاتے۔اگر آپ نفس سے ہار جائیں تو ابلیس یہ یزید بننے میں دیر نہیں لگتی۔
سائنس بھی اسکو اپنا رنگ دیتی ہے۔سائنس کہتی ہے جو مشاہدہ کرتے ہیں پھر اسکو پریکٹیکل کر لیتے۔بار بار hypothesis کی ناکامی کی بعد وہ پھر ایڈیسن بن جاتے۔جو خود سے خود کی جنگ لڑتا وہی سائنس دان نیوٹن،اور آئین سٹائین بن جاتا۔
اسی طرح قانون بھی اسکو غلط اور صحیح کی جنگ کہتا ہے۔قانون کہتا ہے انسان خود سے ایک جنگ لڑتا ہے کہ غلط کو غلط کہنا ہے۔جو قانون دان یہ کر جاتے وہی تاریخ میں زندہ رہتی۔قائد اعظم جب مسلم کے حقوق کی جنگ میں آگئے تو انہوں نے سب آفرز کا انکار کر دیا جو انکو اس جنگ کے دوران دی گی۔آپ دیکھ لیں دنیا پوری اُنکی عظمت کو سلام کرتی ہے۔
خود سے خود کی جو جنگ ہے دراصل یہی انسان کی بقا ہے۔یہ جنگ جو جیت جاتے وہ باہر کی جنگ بھی جیت لیتے ہیں۔جو خود سے ہے ہار جاتے وہ دوسروں سے نہیں جیت سکتے۔ہمیں ہمیشہ اپنے آپکو جتنا ہے۔اپنےآپکو فتح کرنا ہے باقی سب خود آپ کے آگے جُک جائے گا۔۔
نعیم الیاس۔۔۔۔۔۔۔۔
بانس کا پودا جب زمین پے لگایا جاتا ہے تو اسکو زمین سے باہر آنے میں پانچ سال لگ جاتے ہیں۔مالی پانچ سال اس کو پانی ،کھاد اور موسمی اثرات کا خیال رکھتا ہے۔جب پودا زمین سے باہر آتا ہے تو وہ پانچ ہفتوں نوے فٹ تک لمبائی حاصل کر لیتا ہے۔ایک دن میں دو سے تین فٹ تک لمبائی حاصل کرتا رہتا ہے۔ پھر یہ عمر بھر بڑھتا رہتا ہے اسکو کاٹ بھی دیں تو بھی کچھ دن میں لمبائی حاصل کر لیتا ہے۔اسکی عمر سالوں تک قائم رہتی ہے۔جب کہ دوسرےپودے بہت جلد اُگ جاتے ہیں اور اتنی ہے جلدی مرجھا جاتے ہیں۔بلکل اسی طرح ہمارے خواب،مقصد،اور کامیابیاں ہوتی ہیں۔ ۔انکی ایک بنیاد ہوتی ہے جس کو ایک وقت ،محنت ،جذبہ،یقین، مستقل مزاجی ،لگن اور خود اعتمادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھوٹے خواب عام پودے ہیں کو جلدی اگتے اور مرجھاتے ہیں جب کہ بڑے خواب بلکل بانس کے پودے کی طرح ہوتے ہیں۔ آپ ہر کامیاب انسان کی زندگی دیکھیں آپکو ایک بات نظر آے گی اور وہ اُنکی بنیاد ۔جب وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو اُنکی گروتھ دن دوگنی اور رات چوگنی ہوتی ہے۔آج پوری دنیا چین کی مثال دیتی ہے ۔آج کا چین تیس سال تک زمین میں دفن رہے اور پھر دنیا کی لیڈنگ اکانومی بن گیا۔ چالیس سال تک اللّٰہ کے نبی کریم صلی االلہ علیہ وسلم خاموشی سے محنت کرتے رہے اور پھر وحی آ گی ۔پاکستان کا وجود تو مجدّد الف ثانی کے دور سے شروع ہوا مگر قرارداد پاکستان وہ مقام تھا جہاں بانس کا پودا زمین سے باہر آگیا اور اگلے سات سال میں پاکستان کا وجود بن گیا۔مینڈیلا کو ستائیس سال جیل میں دفن رہے جب باہر آئے تو بانس زمین سے باہر آ چکا تھا۔ ہر کامیابی در اصل ایک بنیاد مانگتی ہے۔اگر آپ زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو سمجھ لیں آپ نے صبر کے ساتھ اپنے خواب کو وقت دینا ہے۔آپکا پودا جب تک زمین سے باہر نہیں آئے گا تب تک آپکو لوگ یہی کہتے رہے گیں کے یہ انسان پاگل ہے جو بنجر زمین کو پانی دے رہا ہے۔۔جب کہ آپکو پتہ ہوتا ہے اسی زمین میں میرا خواب ہے ایک نا ایک دن اسنے زمین سے باہر آنا ہے۔ہمیں زندگی میں ایک اصول ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ جتنا بڑھا خواب ہو اتنا سخت امتحان،انتظار،محنت،لگن،صبر،اُمید اور جنون درکار ہوتا ہے۔۔۔
نعیم الیاس۔۔
کمرہ عدالت سے جیسے ہی باہر نکلا تو ایک میسج آیا ہوا تھا۔اس میں لکھا تھا کے "ہم اکیلے آئیں ،جائیں گے بھی اکیلے تو پھر ہم ساری زندگی رشتے کیوں نبھاتے ہیں؟" سوال نے میرے قدم وہی روک دیئے اور باہر صحن میں بیٹھ گیا اور اس سوچنا شروع کر دیا۔اسی دوران میں دیکھتا ہوں کہ درخت پر ایک پرندہ اپنے بچے کو کھانا چونچ میں ڈال کے کھلا رہا تھا۔ میں نے سوچا جب یہ پرندہ اکیلا آیا ہے تو اسکی ساتھ والے رشتے کیوں نبھا رہے ہیں۔۔دراصل ہم اس دنیا میں اکیلے نہیں آتے بلکہ ہم کو ایک پروسیس کے ذریعے دنیا میں لایا جاتا ہے۔ہمارےوجود سے پہلے ایک ارادہ ہوتا ہے۔پیار محبت خلوص چاہت احساس اور ذمداری ہوتی ہے۔ایک عمر بھر کا وعدہ ہوتا ہے جس کو نبھاتے نبھاتے لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ہم ساری زندگی میں کبھی اکیلے ہوتے ہی نہیں ہیں۔آپ سوچیں آپ آج جو ہیں ،آپکا وجود،آپکی سوچ،آپکا مقام،سب کا سب ایک مجموعی کوشش کا نام ہے۔یہاں تک کہ آپ نے اس دنیا سے جانا ہے ،آپ کسی بی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں آپ اکیلے نہیں جا سکتے۔آپ ساتھ محبتیں،نفرتیں،کامیابیاں، عزتیں،فساد،بغض،سوچ، خیال،رشتے،مذہب،شہرت، بصیرت،حسن،جوانی ،بچپن،بڑھاپا،خواشہیں،اور بہت کچھ ساتھ جاتا ہے۔انسان اور جانور میں فرق صرف رشتے نبھانے کا نام ہی ہے۔انسان کو انسان یہ رشتے بناتے ہیں۔یہ رشتے زندگی کی علامت ہیں۔یہ رشتے زندگی کا سکون ہیں ۔یہ رشتے زندگی کا مقصد ہیں۔زندگی کو زندگی کا رنگ دینے والے رشتے ہی تو ہیں۔ما ں باپ عمر بھر اولاد کے لیے جیتے ہیں ۔جنکی اولاد چھوڑ جاتی یہ ما ں باپ سے پہلے مر جاتی وہ والدین عمر سے پہلے ہے مر جاتے۔بہن بھائی،دوست،میاں بیوی،یہ سب رشتے آپکی زندگی میں آپکو زندہ رکھتے ہیں۔ہاں بعض اوکا ت ایسا ہوتا ہے کہ یہ رشتے انسان کو تکلیف دینا شروع کر دیتے ہیں۔میرا ماننا یہ ہے کہ ہو سکتا کوئی ایک رشتا آپکو کانٹا لگ رہا ہو مگر یہ بھی دیکھیں کے باقی تو سب پھول ہیں ۔ایک باغ میں اگر ایک کانٹے در جھاڑی اُگ آئی ہے تو کیا آپ پورا باغ ہے چھوڑ دیں گے؟ آپ بس اس کانٹے کو باہر نکال دیں گے ۔کبھی کبھی آپکو کانٹوں کو نکالنا نہیں بلکہ ignore کرنا پڑتا ہے۔ یہ تو تھا تصویر کا ایک رنگ۔اب آتے ہیں دوسری طرف۔
انسان ایک ایسا پودا ہے جو رشتوں کی بنیاد پے بڑھتا ہے۔آپکا وجود ایک پودا ہے۔اُسکی محبت ،چاہت،عزت،رہنمائی،احساسِ اور خلوص کا پانی بھی چاہے،اُسکی کانٹ چھانٹ کے لیے مختلف قسم کے اوزار استمال ہوتے ہیں اور یہ اوزار دوسروں کی نفرت، غصے،بغض،دھوکہ ،فراڈ وغیرہ ہوتے ہیں جو آپ برداشت کرتے ہیں اور بہتر سے بہترین ہوتے ہیں۔جیسے جیسے آپ بڑھتے جاتے ہیں آپکو کو یاد رکھنا پڑتا ہے کے آپکی جڑ زمین میں ہے ،آپ نے اسی زمین پے پھل اور سایہ دینا ہے کیوں کہ جب آپکا وجود کا بیج اس زمین میں رکھا گیا تھا تو آپ کو دھوپ،سایہ،بارش،موسم ، خزاں،بہار،سردی ،گرمی سے بچانے والے ،آپ کے اوپر سایہ کرنے والے پودے اب اسی زمین میں دفن ہیں۔اسی طرح آپ نے بھی آگے رشتہِ نبھانا ہے۔جو لوگ خود کو اکیلے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،یا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہے کیوں نبھائیں وہ کسی جنگل میں اکیلے ہے دفن ہو جاتے جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا ہے۔میں اپنی بات علامہ اقبال کے ایک شعر پے ختم کروں گا۔۔۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے, تنہا کچھ نہیں۔۔۔۔.
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں…
نعیم الیاس۔۔۔۔
*تحریر:سیفی ملک*
فحاشی آج کے دور کا ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری بن چکی ہے جو نئ نسل کی سوچ کو متاثر کر رہی ہے۔ اس سے اعصابی نظام میں خلل پڑ رہا ہے اور درجنوں بیماریاں وجود میں آرہی ہیں ۔ فحاشی آپ کے جسم کے ساتھ ساتھ آپ کی روح کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اسلام میں بدفعلی ایک عظیم گناہ ہے اور اس کی سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔ فحاشی پھیلانے میں سب سے بڑا کردار انٹرنیٹ اور موبائل فون کا ہے۔ یہ سچ ہے کہ گوگل سے دنیا بہت فائدہ اٹھا رہی ہے۔ مگر یہی گوگل دنیا میں فحاشی جیسے بیسیوں غلیظ ترین کاموں کو نئ نسل میں ابھار رہا ہے فحش انڈسٹری میں کام کرنے والے زیادہ تر لوگ بے روز گار طبقے سے وابستہ ہو سکتے ہیں۔
جن کو کام نہیں ملا اور وہ اس قابل نفرت دهنده پر لگ گئے۔ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی بھی اسی فحاشی کی ایک قسم ہے۔ یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو آپ کی شکل یعنی چہرے کو سکین کر کے کسی بھی فحش ویڈیو میں لگا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ چہرے کے تاثرات کو ویڈیو کے مطابق بدل بھی سکتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے کئ نامور شخصیات کی فیک فحش ویڈیوز بھی بنائ جا
چکی ہیں۔
جنیٹک ایڈور سیریل ٹیکنالوجی ڈیپ فیک ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والا اصل آلہ ہے جو چہرے کے ساتھ ساتھ اس کے تاثرات کی بھی نقل اتار سکتا ہے۔ بات اگر سیدھے الفاظ میں کہی جائے تو یہ سادہ لوح یا شریف آدمی کو بدنام کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ انسان کو اپنی جان سے پیاری اپنی عزت ہوتی ہے۔ عزت کے بغیرانسان کا کچھ باقی نہیں رہتا۔ اس ٹیکنالوجی میں زیادہ تر عورت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
سیکڑوں مردوں عورتوں کی تصاویر فیس بک یا دوسرے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اٹھا کر ان کی اس ٹیکنالوجی کے ذریعے فحش ویڈیوز بنائ جا رہی ہیں ۔ جب کہ ان بے چاروں کو بھنک تک نہیں پڑتی۔ یوں ان شریف لوگوں کو معاشرہ غلطی فہمی کی بنا پر بے غیرت کہنے لگ پڑتا ہے۔ اس ٹیکنالوی کو بند کرنے کے خاطر خواہ اقدامات فی الحال نہیں ہوے ۔ البتہ فیس بک کے مالک نے اس انسان کے لیے دس ملین ڈالر کا انعام رکھا ہے جو اس ٹیکنا لو جی کو ختم کر سکے ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو ختم کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔ اس کے پیچھے بہت بڑے گروہ کا ہاتھ ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان جھوٹی ویڈیوز پر چند لمحوں میں لاکھوں ویوز ہوتے ہیں ۔ درحقیقت جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلیں گے کچھ بھی بدلنا ممکن نہیں ہے۔
جتنا ہو سکے خود کو عبادات میں مشغول رکھیں اور خود کو خدا کے سپرد کر دیں ۔ اس کی ذات سے زیادہ نگہبان کوئ نہیں ۔ اللہ پاک آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو۔ آمین
پنھنجن کانسواء ڀلا ڪھڙيون عيدو۔۔!!
عيد منعي! خوشي،راحت جنھن ڏينھن جي اچڻ سان ھڪ پاسي محبتن جو جنم ٿيندو آھي ته،ساڳئي ويلي غريبن کي غريب ھئڻ جو احساس به وڌي ويندو آھي! ڇاڪاڻ ڪنھن احساس مند شخص چواڻي ته،آئون عيد جھڙا ڀلارا ۽ خوشين جھڙا ڏينھن ناھيان ملھائيندو ڇو جو انھن خوشين وارن ڏينھن جي اچڻ سان غريبن کي پنھنجي غريب ھئڻ جو احساس وڌي ويندو آھي! عيد جو ڏينھن جتي انيڪ خوشيون کڻي کڻي حاضر ٿيندو آھي، اتي ھي ڏينھن انھي لاء ”خزان“ به بڻجي پوندو آھي! ڇاڪاڻ ته پنھنجن کان پري رھڻ ۽ وري خوشي جھڙن ڏھاڙن جي اچڻ سان جتي ڪنھن پل لاءِ خوشي محسوس ٿيندي آھي، اتي پنھنجائپ جو احساس سچ ۾ آڪٽوبر،نومبر ۽ ڊسمبر ئي لڳندو آھي٠٠ مطلب جيڪي پاڻ کي اڪيلو سمجھندا آھن نه چاھيندي به ھھڙن ڏينھن تي پنھنجن کان پري رھن ٿا، سفري يا وري جسماني مطلب نفرتن جي نگري ۾ ڦاٿل ماڻھو ويجھو ھوندي به ڄڻ زميني وڇوٽي تي ھوندا آھن!عيد ھڪ خوشين جو وقت آهي، پر اهو اسان مان انهن ماڻهن لاءِ به بيحد اداسي آهي، جيڪي پنهنجي خاندان جي ميمبرن سان گڏ خوشيون ونڊ نٿا ڪن ٿا يقينن سڀني رشتن سان گڏ ماءُ پيءُ جي غير موجودگي جو به ڪو احساس ٿي نٿو سگھي!جيتوڻيڪ منهنجي ماءُ کي وڇڙيل ڇھ سال ٿي ويا آهن، ۽ منهنجي بابا سائين کي چوڏهن سال ٿيا آهن،، سچ ۾ سوچيندي آھيان ڀلا امڙ ۽ بابي کان سواءِ ڀلا شمائلا جون عيدون به ڪھڙيون بس رسم نڀائڻ عيد ملھائڻ مجبوري آھي باقي اندر جي اڌمن جي ور چڙھيل خاص طور تي پنھنجائپ جو احساس ۽ جذبو رکندڙن لاءِ خوشين جي سڀئي ڏينھن ڄڻ وڌيڪ اذيت ڀريا لڳندا آھن،جڏهن ته دنيا جا ھر ڪم ھميشه رھن ٿا، پر ماءُ پيءُ ھميشه ناهي رھندا، ماءُ پيءُ کي وقت ڏيڻ گهرجي عيدون به انھن ساڻ ھونديون آھن، ۽ جن جا ماءُ پيءُ ھن دنيا ۾ نه آھن، ته انهن کي گھرجي ته قبرستان تي وڃن،
صبر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا روٹ ورڈ (ص۔ب.ر) ہے ۔ صبر کا مطلب خود کو باندھ لینا ہوتا ہے، باز رکھنا یا خود کو منفی ردعمل سے روکنا ہے۔ صبر آنسو نہ بہانے کا نام نہیں ہے کیونکہ اگر آنسو نہ بہانے ہوتے تو اللہ آنسو بناتے ہی نہیں۔ صبر تو ایک پوزیٹو ردعمل کا نام ہے۔
صبر کا مطلب ہے :
درد اور تکلیف میں یہ یقین رکھ کر پر سکون رہنا کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے۔ اس بات پر یقین رکھنا کہ اگر غم اور پریشانی اللہ نے دی ہے تو اس کا حل بھی وہی نکالے گا۔
یہ یقین رکھنا کہ اگر وہ ہماری دعا ابھی نہیں سن رہا تو کبھی تو سنے گا۔
صبر اس چیز کا نام ہے کہ ہم اپنی اس ایک قبول نہ ہونے والی دعا سے نظریں ہٹا کر دوسری نعمتوں کو دیکھیں۔ اس وقت میں قبول ہونی والی باقی دعاؤں پر نظریں جمائیں اور خود کو مایوسی کے سمندر سے نکال لیں۔
پتا ہے ایک بار میں نے کہیں سنا تھا کہ ہمیں اللہ سے صبر نہیں مانگنا چاہئے کیونکہ اس کے بعد ہم اپنی زندگی کے ایسے فیز میں داخل ہوجاتے ہیں جہاں آزمائشیں ہوتی ہیں، تکالیف ہوتیں ہیں تاکہ ہم صبر کرنا سیکھ سکیں۔
لیکن صبر کے معنی سمجھنے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اللہ سے صبر ضرور مانگنا چاہئے۔ صبح شام مانگنا چاہئے بلکہ ہر وقت مانگنا چاہئے کیونکہ جب ہم میں صبر ہو گا تو ہم مایوس نہیں ہوں گے۔ ڈھلتا سورج دیکھ کر ہمارے اندر تنہائی کا جو غبار اٹھتا ہے وہ نہیں اٹھے گا۔ ہمارے اندر کا سمندر پر سکون ہو جائے گا۔
مدثرعباس
اس وطن عزیز میں جمہوریت کو ایک اعلی مقام حاصل ہیں، جو لوگ اس وطن عزیز کے ہمدرد ہے وہی لوگ اس وطن عزیز میں رہتے ہوئے غریب لوگوں کو انکے حقوق دلانے میں سیاسی طریقہ کار کو اپنا کر ایک حاص فلور پر غریبوں کے حقوق کیلئے لڑتے ہیں، اب یہاں پر دو قسم سیاسی لوگ سیاست کرتے ہیں جو ایک دوسرے میں ضم ہونے جارہی ہیں، ایک اعلی تعلیم یافتہ اور دوسرے اَن پڑھ لوگ، کہنے کا مطلب ہے کہ سیاست میں ایک قسم گروہ ضم ہورہی ہیں، جو کہ نا تو سیاست کا طریقہ کار جانتے ہے اور نا ہی تنظیم سازی، وہی گروہوں میں سیاسی شعور کی عدم موجودگی کے باعث یہ سیاست سے فرقہ واریت کا راستہ اختیار کرلیتی ہیں _ جو کہ اس سے بدامنی کو پورا موقع مل جاتی ہیں اور وہ اس ریاست کی ساکھ کو مٹی میں ملا کر خاک کردیتی ہیں، تو سیاست میں فرقہ واریت سے بچنے کیلئے سیاسی لیڈروں کو سب سے پہلے تعلیم و تربیت پر کام کرنا ہوگا اور اس کے بعد سیاسی شعور کو لوگوں میں ایک مہذب انداز سے پیدا کرنے ہوگا جو کہ لوگوں میں دوسرے سیاسی پارٹیوں اور اُن کے کارکنوں کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہوں، پر اس وطن عزیز میں سیاسی لیڈروں کا منشور، گالی گلوچ، چور ڈاکوں، پٹواری، یوتھیا، اسکے علاوہ سیاسی لیڈروں کو کہنے کیلئے کچھ بھی نہیں، کیونکہ نا تو اس ملک عزیز میں بلوچ قوم پر ظلم ہورہاہیں نا تو یہ ملک عزیز ترقی میں کسی کے پیچھے ہیں جو کہ سیاسی لیڈر اس پر کام کریں اور اس ملک عزیز کو دنیا کی نظروں میں اہمیت دیں ..........
یہاں پر ہمارے پاس سیاسی شعور کی کمی کا امدازہ اس لگایا جاسکتا ہیں کہ کوئی جرنلسٹ سوال اٹھائے تو انکو بھی گالیوں کا ہار پہنایا جاتا ہیں اور یہ چیز پاکستان کو اندر سے کمزور کرنے میں حد درجے مدد دیتا ہیں جو کہ زوال کی نشانیوں میں سے ایک ہیں
Сотрудники казанского ОМОН и СОБР Управления Росгвардии по Республике Татарстан организовали экскурсию и выездное занятие для студентов казанского филиала Всероссийского государственного университета юстиции.
В преддверии празднования Дня Победы в расположении ОМОН «Ак Барс» Управления Росгвардии по РТ состоялось выездное военно-патриотическое занятие для студентов казанского филиала Всероссийского государственного университета юстиции. В проведении занятий приняли участие также сотрудники СОБР «Тимер Батыр» и кинологи МВД по Республике Татарстан. Будущие юристы, большинство из которых проходят обучение на кафедре уголовного процесса и криминалистики, задавали много вопросов и интересовались различными подробностями.
Студентам показали практическую работу кинологов с собаками при поиске запрещённых веществ, опасных предметов, а также при задержании преступников. Затем вниманию гостей представили выставку вооружения и специальной техники спецподразделения Росгвардии, подробно рассказали о назначении и особенностях каждого элемента экспозиции. Сотрудники СОБР продемонстрировали мастерство в высотной подготовке, выполнив эффектные спуски с 20-метрового здания.
«Для нас было очень важно провести выездные занятия именно в боевом подразделении Росгвардии, чтобы студенты лично пообщались с правоохранителями, которые стоят на переднем крае борьбы с преступностью и терроризмом», - отметил доцент кафедры уголовного процесса и криминалистики Газинур Хуснетдинов.
В завершение мероприятия с гостями провели патриотическую беседу и показали документальный фильм о войсках национальной гвардии Российской Федерации.
В Казанской ратуше состоялся первый республиканский Пасхальный бал в котором приняли участие более трёхсот юношей и девушек со всей республики. В просторном холле исполнялись исторические танцы, которые танцевали на первых балах, учреждённых Петром Первым.
Музыкальное сопровождение мероприятия осуществлял военный оркестр казанского специального моторизованного полка Приволжского округа войск национальной гвардии Российской Федерации под управлением заслуженного артиста Республики Татарстан майора Вадима Кравчука. Военные музыканты на высоком профессиональном уровне исполнили знаменитые вальсы и произведения русской классической музыки.