انسان زندگی میں کبھی ناکام نہیں ہوتا۔اگر کوئی چیز ناکام ہوتی ہے تو وہ ہے اُسکا ارادہ،اُسکا حو صلہ،اُسکا تخیل،اس کا آئیڈیا،اُسکی تدبیر،اُسکا دائرہ،اُسکی سوچ،اُسکا طریقہ،یا اس کا منصوبہ۔انسان اس ناکامی کو خود کی ناکامی سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔قدرت کا کمال یہ ہے کہ اسنے اس کائنات میں انسان کے لیے سب رکھا ہے مگر ناکامی نہیں رکھی۔اسی لیے تو انسان کو اشرفالمخلوقات بنا دیا ہے۔اگر قدرت نے انسان کو ناکام کرنا ہوتا تو فرشتوں سے سجدہ نہ کرواتی،اسکو افضل ترین مخلوق کا درجہ نہ دیتی۔
اگر آپکو یقین نہیں آتا تو آپ خود دیکھیں آپکو ناکامی کی کوئی بھی ایک جامع تعریف نہیں ملے گی۔ہر انسان،ہر مضمون ناکامی کو اپنے رنگ میں بیان کرے گا۔ آج تک کوئی بھی اسکی ایک ایسی جامع تعریف نہیں بنا سکا جس پر سب متفق ہو جائیں۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر ناکامی کا معیار بدلتا جاتا ہے،کسی وقت میں جس کو وہ ناکامی سمجھتا تھا کچھ وقت بعد وہی ناکامی دراصل اپنا وجود،اہمیت کھو چکی ہوتی ہے۔ ہر انسان کے لیے ناکامی مختلف ہے ۔ کسی کے لیے ناکامی دولت کا نہ ملنا ہے،کسی کے لیے ناکامی نوکری کا نہ ملنا ہے۔بچے کے لیے ناکامی کھلونا نہ ملنا ہے،اور کسی بزرگ کی ناکامی شاید اچھی صحت کا نہ ہونا ہے، کسی کی ناکامی شاید خوش نہ رہ پا نا ہے۔ہر انسان اس کو الگ طرح سے بیان کرتا ہے۔یہ محض انسان کے ذہن کا فتور ہے جو اسکو طور سے دور رکھتا ہے۔
حقیقت بات یہ ہے کہ ناکامی تو ایک رحمت ہے،یہ ایک قبولیت ہے،یہ ایک راستہ ہے۔جب کبھی آپ کسی چیز میں ناکامی محسوس کر رہے ہوں تو سمجھ جائیں کہ قدرت کو آپکا منصوبہ پسند آ گیا ہے، قدرت آپکی رہنمائی کر رہی ہے،آپکو راستہ دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے،قدرت نے آپکو کوشش کو قبول کر لیا ہے۔ آپ کے لیے اصل منصوبہ بندی کر رہی ہے۔اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اس منصوبہ بندی کو سمجھ سکتے ہیں یا آپ اسکو ناکامی سمجھ کر راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔انسان بھی قدرت کا ایک بچہ ہے جب وہ چلنا شروع کرتا ہے تو بار بار گرتا ہے مگر ہمت نہیں ہارتا کوشش کرتا رہتا ہے آخر وہی بچہ بولٹ ، دنیا کا تیز ترین بھاگنے والے بچہ بن جاتا ہے۔کامیاب لوگ قدرت کو سمجھ لیتے ہیں۔وہ اپنے خوابوں کے لیے موزوں زمین ڈھونڈ لیتے ہیں۔خواب بیج کی طرح ہوتے ہیں جو آپکو زمین میں بونے پڑ تے ہیں،یاد رکھیں صحرا میں اُگنے والے پودے پہاڑوں میں نہیں اُگ سکتے،میدان میں جو پھل لگتے ہیں وہ ساحلوں پے نہیں لگ سکتے۔جیسے ہر پودے کو ایک الگ ماحول چاہئے ہوتا ہے،اسی طرح ہر خواب کو بھی الگ ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر آپ صحرا میں ہیں اور آپکا خواب پہاڑ ہیں تو آپکو سفر کرنا ہو گا اس زمین کی تلاش میں جہاں کا خواب آپ نے دیکھا ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ سفر نہیں کرتے اپنے خوابوں کے لیے موزوں زمین کی تلاش نہیں کرتے۔ہم اپنے خواب کا بیج بغیر سوچے سمجھے بو دیتے ہیں،اکثر اس پر محنت بھی کرتے ہیں مگر ہم اسکو اگانے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ جب ہمارا بیج نہیں اُگتا ہم قدرت کو شکوہ کر کے ہمت ہار دیتے ہیں۔جب کہ اُسکا نا اُگنا بھی قدرت کا ایک رسپانس ہے۔قدرت آپکو سمجھا رہی ہوتی ہے کہ آپکا بیج اس جگہ کے لیے نہیں ہے۔ہر کوئی اچھا ڈاکٹر نہیں بن سکتا،ہر کوئی اچھا انجینئر،کھلاڑی،آرٹسٹ،بزنس میں وکیل،جج،سیول سرونٹ ،یا اچھا استاد نہیں بن سکتا ۔اس لیے تو کہا گیا ہے غور و فکر کرو،اس کائنات میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشیناں ہیں۔جب آپ غور کرتے ہیں تو آپکو بار بار اپنے خواب کے بیج کے لیے زمین ڈھونڈنا پڑتی ہے۔کامیاب لوگ بار بار اپنا بیج بوتے ہیں آخر کار موزوں زمین ڈھونڈ لیتے ہیں جیسے کہ جیک ما کو ستائیس بار نوکری نہیں ملی پھر وہ علی بابا کا مالک بن گیا۔اس نے اپنا بیج ستائیس جگہ بویا اور آخر اسکو وہ ماحول مل گیا جس میں اُسکا بیج درخت بن گیا۔ ایڈیسن کو ہزار بار سفر کرنا پرا پھر بلب ملا،کے ایف سی کا ملک کو ستر سال سفر کی مسافت درکار تھی۔
جیسے زمین اپنی مدار کی ارد گرد گھومتی ہے یہ لوگ بھی سفر کے دوران اپنے خواب سے دور نہیں ہوئے۔ زندگی کے حالات سے لڑتے رہے مگر اپنے مدار سے دور نہیں ہوئے ،جیسے زمین اپنے محور کے گرد چکر لگاتی ہے ویسے یہ لوگ سیلف انالسس کرتے رہے۔ان لوگوں کو پتا تھا سردی گرمی خزاں کے بعد بہار آ جانی ہے، اور خود کی تکمیل کرتے رہے۔اپنے خوابوں کی زمین ڈھونڈتے رہے۔ یہ لوگ جانتے تھے اگر ایک بہار گزر بھی گئی تو بھی اگلی بہار کی اُمید پے چلتے رہے۔
یہ لوگ ایک ہی اصول پے کام کرتے ہیں وہ یہ ہے یا تو ہم درخت ہیں،یا ہم باغ ہیں۔اس کے علاوہ قدرت نے انسان کو بیکار پیدا نہیں کیا۔ان لوگوں کو پتا ہوتا ہے ہمارا خواب دوسروں کی زندگی بھی بدل سکتا ہے اس لیے ہو سکتا ہے ہمارے درختِ پر پھل نا لگیں مگر بیج ضرور لگیں گے جو دوسروں کے خواب پورا کر دیں گیں۔ان بیجوں سے اور پودے لگیں گے ایک باغ بن جائے گا۔تاریخ بھری پڑی ہے ایسی مثالوں سے ۔ہم زیادہ دور نہیں جاتے آپ علی گڑھ تحریک کو دیکھیں اگر سر سعید احمد خان کا خواب صرف پھل دیتا تو وہ ایک درختِ ہوتا مگر وہاں بیج اُگ گئے جو آگے جا کر ایک باغ بن گے،بل گیٹس،زکربرگ،عبدالستار ایدھی جیسے لوگ اپنے زِندگی میں کئی بار ناکام تھے مگر قدرت ان کے بیج کو درخت نہیں بنانا چاہتی تھی بلکہ باغ بنانا چاہتی تھی۔آخر کار وہ ایسی باغ بن گئے لاکھوں لوگ اپنے خواب پورے کرنے ان کے پاس جاتے ہیں۔ہمیں بھی زِندگی میں یہ اصول اپنا لینے چاہے کہ یا تو ہم درخت ہیں یہ ہم باغ ہیں۔اگر آپ کا پودا نہیں اُگ رہا تو اپنی جگہ بدل لیں،بار بار بدل لیں آپکو ایک دن وہ جگہ مل جائے گی۔دوسرا ہو سکتا آپ خود اپنا خواب پورا نا کر سکیں مگر موزوں زمین کی تلاش کر لیں تو دوسروں کو وہاں کا پتہ ضرور بتائیں تا کہ آپ کا بیج بھی اس کامیاب باغ کا حصہ بن جائے کیوں کہ اگر کسی باغ میں سب درختِ پھل دار ہوں اور کسی ایک پر پھل نا بھی لگا ہو تو بھی سب یہی کہتے ہیں یہ باغ پھل دار ہے۔تیسرا کبھی بھی اپنا مدار نہیں چھوڑنا چاہیے۔ہو سکتا زِندگی آپکو کبھی دور لے جائے،حالات ایسے آ جائیں مگر خواب کو خود سے دور نہ ہونے دیں۔ اگر آپ نے مدار چھوڑا سمجھو کہ آپ اُلجھ گئے پھر آپ مدار میں واپس نہیں آ سکتے۔ ہم کو اپنے محور کے گرد بھی گھومنا چاہے تا کے ہم خود کو بھی سمجھ سکیں ،خود پے کام کر سکیں۔یہ محور اور مدار کا نظام ہے اصل کنجی ہے۔ سب سے اہم بات کہ آپ خزاں کے پھول ہیں تو بہار میں صبر کریں،اگر آپ گرمی کے پھول ہیں تو سردی میں صبر کریں،آپ اگر مدار میں ہیں تو ہر سال بہار بھی آنی ہے،خزاں بھی آنی ہے،سردی بھی آنی ہے اور گرمی بھی آنی ہے۔آپکو اپنا مدار قائم رکھنا ہے قدرت آپکو آپکی جگہ تک ضرور لے جائے گی۔
نعیم الیاس۔۔